EN हिंदी
غزلوں میں اب وہ رنگ نہ رعنائی رہ گئی | شیح شیری
ghazlon mein ab wo rang na ranai rah gai

غزل

غزلوں میں اب وہ رنگ نہ رعنائی رہ گئی

فاروق شمیم

;

غزلوں میں اب وہ رنگ نہ رعنائی رہ گئی
کچھ رہ گئی تو قافیہ پیمائی رہ گئی

لفظوں کا یہ حصار بلندی نہ چھو سکا
یوں بھی مرے خیال کی گہرائی رہ گئی

کیا سوچیے کہ رشتۂ دیوار کیا ہوا
دھوپوں سے اب جو معرکہ آرائی رہ گئی

کب جانے ساتھ چھوڑ دیں دل کی یہ دھڑکنیں
ہر وقت سوچتی یہی تنہائی رہ گئی

اپنے ہی فن کی آگ میں جلتے رہے شمیمؔ
ہونٹوں پہ سب کے حوصلہ افزائی رہ گئی