غزلوں میں اب وہ رنگ نہ رعنائی رہ گئی
کچھ رہ گئی تو قافیہ پیمائی رہ گئی
لفظوں کا یہ حصار بلندی نہ چھو سکا
یوں بھی مرے خیال کی گہرائی رہ گئی
کیا سوچیے کہ رشتۂ دیوار کیا ہوا
دھوپوں سے اب جو معرکہ آرائی رہ گئی
کب جانے ساتھ چھوڑ دیں دل کی یہ دھڑکنیں
ہر وقت سوچتی یہی تنہائی رہ گئی
اپنے ہی فن کی آگ میں جلتے رہے شمیمؔ
ہونٹوں پہ سب کے حوصلہ افزائی رہ گئی

غزل
غزلوں میں اب وہ رنگ نہ رعنائی رہ گئی
فاروق شمیم