غزل میں درد کا جادو مجھی کو ہونا تھا
کہ دشت عشق میں باہو مجھی کو ہونا تھا
اسے تو چاند بھی بے چارگی میں چھوڑ گیا
اندھیری رات کا جگنو مجھی کو ہونا تھا
ذرا سی بات پہ یہ جوگ کون لیتا ہے
تمہارے پیار میں سادھو مجھی کو ہونا تھا
بدن کے اور حوالے تو سب سلامت تھے
مگر کٹا ہوا بازو مجھی کو ہونا تھا
کسی کا کرب مری ذات سے امڈتا ہے
کسی کی آنکھ کا آنسو مجھی کو ہونا تھا
میں اسم رکھتا ہوں یاری میں غم گساری میں
ہر ایک زخم کا دارو مجھی کو ہونا تھا
گھروں کو چھوڑ کے سب ہوشیار کہلائیں
وطن کی مٹی کا مادھو مجھی کو ہونا تھا
یہ اپنی اپنی طبیعت کی بات ہے ثاقبؔ
اسے جو پھول تو خوشبو مجھی کو ہونا تھا
غزل
غزل میں درد کا جادو مجھی کو ہونا تھا
آصف ثاقب