غزل کا سلسلہ تھا یاد ہوگا
وہ جو اک خواب سا تھا یاد ہوگا
بہاریں ہی بہاریں ناچتی تھیں
ہمارا بھی خدا تھا یاد ہوگا
سمندر کے کنارے سیپیوں سے
کسی نے دل لکھا تھا یاد ہوگا
لبوں پر چپ سی رہتی ہے ہمیشہ
کوئی وعدہ ہوا تھا یاد ہوگا
تمہارے بھولنے کو یاد کر کے
کوئی روتا رہا تھا یاد ہوگا
بغل میں تھے ہمارے گھر تو لیکن
گلی کا فاصلہ تھا یاد ہوگا
ہمارا حال تو سب جانتے ہیں
ہمارا حال کیا تھا یاد ہوگا

غزل
غزل کا سلسلہ تھا یاد ہوگا
طفیل چترویدی