گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار
نہ خواب دیدۂ گریاں میں ہے نہ دل کو قرار
ہزار رنگ سے پھولے چمن میں گو گل زار
پر اس بغیر خوش آتی نہیں مجھے یہ بہار
برنگ لالۂ سر مے کشی نہیں تجھ بن
کہ خون دل سے میں ہر روز توڑتا ہوں خمار
گلوں کے منہ پہ نہ یہ رنگ آب و تاب رہے
وہ رشک باغ کرے گر ادھر کو آ کے گزار
عجب نہیں کہ بہا دیوے خانۂ مردم
رہے گر اشک فشاں یوں ہی دیدۂ خوں بار
رہائی کیونکہ ہو یارب میں اس میں حیراں ہوں
کہ ایک دل ہے مرا تس پہ درد و غم ہے ہزار
کہا میں اس بت ابرو کماں کی خدمت میں
خدنگ جبر نے تیرے کیا ہے مجھ کو نگار
نہ رحم تیرے دل سخت میں ہے غیر از ظلم
نہ میرے نالۂ جاں سوز میں اثر اے یار
نہ تاب ہجر کی رکھتا ہوں نے امید وصال
خدا ہی جانے کہ کیا ہوگا اس کا آخر کار
ہر ایک دن مجھے یوں سوجھتا ہے جی تن سے
نکل ہی جائے گا ہم راہ آہ آتش بار
نہ تو مزار پہ آوے گا تا دم محشر
رہے گی دیدۂ گریاں کو حسرت دیدار
عبث تو مجھ کو ڈراتا ہے اپنے مرنے سے
ہزار تجھ سے مرے مر گئے ہیں عاشق زار
یہ سن کے کہنے لگا وہ ستم گر بے رحم
مری بلا سے جو مر جائے گا تو اے بیدارؔ
غزل
گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار
میر محمدی بیدار