EN हिंदी
گوریوں نے جشن منایا میرے آنگن بارش کا | شیح شیری
gaurayyon ne jashn manaya mere aangan barish ka

غزل

گوریوں نے جشن منایا میرے آنگن بارش کا

بدر عالم خلش

;

گوریوں نے جشن منایا میرے آنگن بارش کا
بیٹھے بیٹھے آ گئی نیند اصرار تھا یہ کسی خواہش کا

چند کتابیں تھوڑے سپنے اک کمرے میں رہتے ہیں
میں بھی یہاں گنجائش بھر ہوں کس کو خیال آرائش کا

ٹھہر ٹھہر کر کوند رہی تھی بجلی باہر جنگل میں
ٹرین رکی تو سرپٹ ہو گیا گھوڑا وقت کی تازش کا

ٹیس پرانے زخموں کی تھی نیند اچٹ گئی آنکھوں سے
بھیگ رہا تھا کروٹ کروٹ گوشہ گوشہ بالش کا

کسی کے دل پر دستک دوں گا کسی کے غم کا دکھڑا ہوں
سننے والے سمجھ رہے ہیں نغمہ ہوں فرمائش کا

سر کے اوپر خاک اڑی تو سب دل تھام کے بیٹھ گئے
خبر نہیں تھی گزر چکا ہے موسم ابر نوازش کا

رینگ رہی تھیں امر لتائیں چھپ چھپ کر شادابی میں
عریاں ہوتی شاخوں سے اب بھرم کھلا زیبائش کا

اپنی ہی دھن میں مگن رہتا ہے سچے سر کا سازندہ
جیسے کہ میں ہوں متوالا خود اپنے طرز نگارش کا

قدم قدم ہے ویرانہ کہیں اور خلشؔ اب کیا جانا
ورنہ شوق مجھے بھی کل تھا صحرا کی پیمائش کا