گوہر اشک سے لبریز ہے سارا دامن
آج کل دامن دولت ہے ہمارا دامن
اے جنوں باد بہاری سے نہیں جنبش میں
کچھ گریبان سے کرتا ہے اشارا دامن
وصل کی رات ہے بگڑو نہ برابر تو رہے
پھٹ گیا میرا گریبان تمہارا دامن
جامہ چین نے نہیں یہ پھول چنے نرگس کے
سیکڑوں آنکھوں سے کرتا ہے نظارا دامن
بہت اے دست جنوں تنگ نظر آتا ہے
باندھ دے دامن صحرا سے ہمارا دامن
خوب پہونچا دیا اے دست جنوں ہاتھوں ہاتھ
مل گیا آج گریبان سے سارا دامن
آمد آمد مرے اشکوں کی مگر سن لی ہے
جھاڑ کر گرد جو صحرا نے سنوارا دامن
غزل
گوہر اشک سے لبریز ہے سارا دامن
خواجہ محمد وزیر لکھنوی