EN हिंदी
غوغائے پند گو نہ رہا نوحہ گر رہا | شیح شیری
ghaugha-e-pand go na raha nauhagar raha

غزل

غوغائے پند گو نہ رہا نوحہ گر رہا

ظہیرؔ دہلوی

;

غوغائے پند گو نہ رہا نوحہ گر رہا
ہنگامہ اک نہ اک مرے بالین پر رہا

اعجاز دل فریبیٔ انداز دیکھنا
ہر ہر ادا پہ مجھ کو گمان نظر رہا

قاصد بھی کوئی صبر دل نا شکیب تھا
آتے ہی آتے راہ میں کمبخت مر رہا

پرہیز عشق سے مجھے وحشت فزوں ہوئی تو
میں کچھ دوا سے اور بھی رنجور تر رہا

ہے پائے ہرزہ ناز میں کیا گردش نصیب
دو دن نہ چین سے سر شوریدہ سر رہا

اٹھ اٹھ کے ساتھ ساتھ مرے تھک کے رہ گیا
میں کچھ تپش میں درد سے بیتاب تر رہا