گرمی جو آئی گھر کا ہوا دان کھل گیا
ساحل پہ جب گیا تو ہر انسان کھل گیا
پہلے تو لانگ مارچ کے حق میں دیا بیان
پھر قادریؔ کو دیکھ کے عمرانؔ کھل گیا
اک مولوی کی آنکھ میں بینائی آ گئی
جب ریل میں کسی کا گریبان کھل گیا
تم ناشتے کی میز پہ بیٹھی ہو اس طرح
یوں لگ رہا ہے جیسے نمک دان کھل گیا
دو چار دن سے میری سماعت بلاک تھی
تم نے غزل پڑھی تو مرا کان کھل گیا
لوٹے وہ جب سفر سے کنیزوں نے یہ کہا
بھاگو جناب شیخ کا سامان کھل گیا
میرے خطوط پڑھ کے وہ روتی ہے اس طرح
لگتا ہے میر انیسؔ کا دیوان کھل گیا
میرے عشائیے کا تھا ٹائم عشا کے بعد
آغاز گفتگو میں ہی مہمان کھل گیا
بزم سخن میں پوری مسدس انڈیل کر
حد سے زیادہ خالدؔ عرفان کھل گیا
غزل
گرمی جو آئی گھر کا ہوا دان کھل گیا
خالد عرفان