گردش میں آئنہ ہو نہ کیوں روزگار کا
چلو میں خوں لیے ہوں دل بے قرار کا
بھڑکی ہوئی تھی سرخ گلوں سے چمن میں آگ
دامن نہ جل گیا ہو نسیم بہار کا
آئے ہیں لے کے غیر کو وہ پوچھنے مزاج
تم نے گلہ کیا تھا دل بے قرار کا
محشر کی بھی امید پہ بے کار جان دی
کیا اعتبار وعدۂ بے اعتبار کا
اتنی تو آرزو ہے کبھی یاد کر لیں دوست
شاید کبھی پھر آئے زمانہ بہار کا
ساغر ابل رہے ہیں تو شیشوں میں جوش ہے
نکلا ہے کھچ کے دم جو کسی بادہ خوار کا
تم آئے کیا کہ رنگ زمانہ بدل گیا
گل ہو گیا چراغ ہمارے مزار کا
تصویر کی رگوں میں لہو دوڑنے لگا
کیا آ گیا جہان میں موسم بہار کا
غزل
گردش میں آئنہ ہو نہ کیوں روزگار کا
جاوید لکھنوی