گردش سیارگاں خوب ہے اپنی جگہ
اور یہ اپنا مکاں خوب ہے اپنی جگہ
اے دل آشفتہ سر رات اندھیری ہے پر
رقص ترا شمع ساں خوب ہے اپنی جگہ
کاغذ آتش زدہ تیری حکایت ہی کیا
پھر بھی تماشائے جاں خوب ہے اپنی جگہ
ہجر نژادوں کا ہے ایک الگ ہی جہاں
اس سے نہ ملنا یہاں خوب ہے اپنی جگہ
سیر بیاباں و در عقدہ کشا نیز
رنج مسافت میاں خوب ہے اپنی جگہ
چہرۂ بلقیس پر آنکھ ٹھہرتی نہیں
صبح یمن کا سماں خوب ہے اپنی جگہ
غزل
گردش سیارگاں خوب ہے اپنی جگہ
ثروت حسین