گردش مقدر کا سلسلہ جو چل جائے
دوسرا عتاب آئے اک بلا جو ٹل جائے
حجرۂ گریباں میں ہر جواب روشن ہے
بس ذرا نگاہوں کا زاویہ بدل جائے
آنسوؤں کے بہنے کا یہ اثر تو ہوتا ہے
غم ذرا سا ڈھل جائے دل بھی کچھ سنبھل جائے
مسئلوں کی گتھی بھی یوں کہاں سلجھتی ہے
اک سرا جو ہاتھ آئے دوسرا نکل جائے
اس ادا کو کیا کہئے وہ پڑوس سے آ کر
گل نئے سجا جائے چادریں بدل جائے
کیا عجب تصور ہے ہم طلب کے ماروں کا
حدت تمنا سے آسماں پگھل جائے
غزل
گردش مقدر کا سلسلہ جو چل جائے
یعقوب تصور