گردش مئے کا اس پر نہ ہوگا اثر مست آنکھوں کا جادو جسے یاد ہے
وہ نسیم گلستاں سے بہلے گا کیا تیرے آنچل کی خوشبو جسے یاد ہے
تشنگی کی وہ شدت کو بھولے گا کیا دھوپ کی وہ تمازت کو بھولے گا کیا
تیری بے فیض آنکھیں جسے یاد ہیں تیرا بے سایہ گیسو جسے یاد ہے
کوئی ممتاز ہے اور نہ شاہ جہاں سوز اور ساز ہے کچھ الگ ہی یہاں
تاج محلوں کے وہ خواب دیکھے گا کیا سنگ مرمر کا زانو جسے یاد ہے
اس کو دکھ درد کوئی چھلے گا نہیں اس کی دنیا کا سورج ڈھلے گا نہیں
تیرے بچپن کی خوشیاں جسے یاد ہیں تیرے دامن کا جگنو جسے یاد ہے
اے علیمؔ آفتوں کے یہ لشکر ہیں کیا ایک محشر نہیں لاکھ محشر ہیں کیا
اس کو فتنوں کی پرواہ بالکل نہیں ترا اک ایک گھنگھرو جسے یاد ہے
غزل
گردش مئے کا اس پر نہ ہوگا اثر مست آنکھوں کا جادو جسے یاد ہے
علیم عثمانی