EN हिंदी
گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ | شیح شیری
gardish-e-dauran se yahan kis ko faragh aaya hai hath

غزل

گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ

عاشق اکبرآبادی

;

گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ
ہاں مگر آیا تو اک حسرت کا داغ آیا ہے ہاتھ

نوحہ سنجی کی بھی مہلت عندلیبوں میں نہیں
باغباں قسمت سے کیا ہے بے دماغ آیا ہے ہاتھ

عمر گزری جستجوے کوچۂ دلدار میں
وائے ناکامی پس از مردن سراغ آیا ہے ہاتھ

دل کے داغوں نے کیا ہم کو چمن سے بے نیاز
منتیں مانی ہیں برسوں تب یہ باغ آیا ہے ہاتھ

داغ دل پر نالہ لب پر چشم گریاں سینہ ریش
عاشقؔ شوریدہ کو کس دم فراغ آیا ہے ہاتھ