گرد اڑے یا کوئی آندھی ہی چلے
یہ امس تو کسی عنوان ٹلے
انگ پر زخم لیے خاک ملے
آن بیٹھے ہیں ترے محل تلے
اپنا گھر شہر خموشاں سا ہے
کون آئے گا یہاں شام ڈھلے
دل پروانہ پہ کیا گزرے گی
جب تلک دھوپ بجھے شمع جلے
روپ کی جوت ہے کالا جادو
اک چھلاوا کہ فرشتوں کو چھلے
دلدلوں میں بھی کنول کھلتے ہیں
نخل امید بہر طور بھلے
اپنے ہی رین بسیروں کی طرف
لوٹ آئے ہیں سبھی شام ڈھلے
میکدے میں تو نشہ بٹتا ہے
کون یاں جانچے برے اور بھلے
روشنی دیکھ کے چندھیا جائیں
جو اندھیروں میں بڑھے اور پلے
خار تو سیف بنے گا گل کی
یہ بھلے ہی کسی گلچیں کو کھلے
رات باقی ہے ابھی تو پرویزؔ
بادہ سرجوش رہے دور چلے
غزل
گرد اڑے یا کوئی آندھی ہی چلے
افضل پرویز