EN हिंदी
گرد کو کدورتوں کی دھو نہ پائے ہم | شیح شیری
gard ko kuduraton ki dho na pae hum

غزل

گرد کو کدورتوں کی دھو نہ پائے ہم

شہریار

;

گرد کو کدورتوں کی دھو نہ پائے ہم
دل بہت اداس ہے کہ رو نہ پائے ہم

وجود کے چہار سمت ریگزار تھا
کہیں بھی خواہشوں کے بیج بو نہ پائے ہم

روح سے تو پہلے دن ہی ہار مان لی
بوجھ اپنے جسم کا بھی ڈھو نہ پائے ہم

دشت میں تو ایک ہم تھے اور کچھ نہ تھا
شہر کے ہجوم میں بھی کھو نہ پائے ہم

ایک خواب دیکھنے کی آرزو رہی
اسی لیے تمام عمر سو نہ پائے ہم