گرد سفر میں راہ نے دیکھا نہیں مجھے
اک عمر مہر و ماہ نے دیکھا نہیں مجھے
اچھا ہوا کہ خاک نشینوں کے رو بہ رو
اس شہر کج کلاہ نے دیکھا نہیں مجھے
میں دیکھتا تھا رنگ بدلتی ہوئی نگاہ
بدلی ہوئی نگاہ نے دیکھا نہیں مجھے
میری صدا وہاں پہ تجھے کیسے ڈھونڈتی
تیری جہاں پناہ نے دیکھا نہیں مجھے
ہر موج درد خود میں اتارے چلا گیا
ساحلؔ دل تباہ نے دیکھا نہیں مجھے
غزل
گرد سفر میں راہ نے دیکھا نہیں مجھے
ذیشان ساحل