گرچہ ہر سمت مسائل کے ہیں انبار بہت
اپنی تقریر پہ ہے شیخ کو اصرار بہت
ہم نے مانا کہ ترے شہر میں سب اچھا ہے
کوئی عیسیٰ ہو تو مل جائیں گے بیمار بہت
نا سپاسی کا ثمر در بدری ہے یارو
یاد آئے گی یہ ٹوٹی ہوئی دیوار بہت
آج پھر قافلۂ حق کا خدا حافظ ہے
شہر والوں میں نہیں جرأت انکار بہت
ہم جو افرنگ سے ہارے ہیں تو دو باتوں پر
وقت کی قدر نہیں گرمئ گفتار بہت
قصۂ خیر نہ چھپنے کے بہانے لاکھوں
خبر بد پہ اچھلتے ہیں یہ اخبار بہت
بات سننے کے لیے صرف ہوائیں خالدؔ
بات کرنے کے لیے دوست بہت یار بہت
غزل
گرچہ ہر سمت مسائل کے ہیں انبار بہت
خالد یوسف