گرچہ دل میں ہی سدا جان جہاں رہتے ہو
پر بظاہر نہیں معلوم کہاں رہتے ہو
شکر للہ کہ ابھی کام تمہیں باقی ہے
لے چکے دل تو ولے درپئے جاں رہتے ہو
آ نکلتے ہو کدھر بھول کے بے خواہش دل
اب بھی جاؤ وہیں ہر روز جہاں رہتے ہو
اے خوش ابرو کوئی پھر ڈھب پہ چڑھا تازہ شکار
یوں جو ہر وقت لیے تیر و کماں رہتے ہو
گر کبھی آئے اثرؔ پاس ہوئے ووہیں اداس
خوش شب و روز پڑے اوروں کے ہاں رہتے ہو
غزل
گرچہ دل میں ہی سدا جان جہاں رہتے ہو
میر اثر