غرض پڑنے پہ اس سے مانگتا ہے
خدا ہوتا ہے یعنی مانتا ہے
کئی دن سے شرارت ہی نہیں کی
مرے اندر کا بچہ لاپتہ ہے
برے ماحول سے گزرا ہے یہ دل
محبت لفظ سے ہی کانپتا ہے
یہ کچی عمر کے عاشق کو دیکھو
ذرا روٹھے کلائی کاٹتا ہے
ابھی منزل دکھائی بھی نہیں دی
ابھی سے ہی تو اتنا ہانپتا ہے
گناہوں کی سزا سب دوسروں کو
گریباں کون اپنا جھانکتا ہے
عجب کاریگری ہے میتؔ اس کی
بدن کو روح پہ وہ ٹانکتا ہے
غزل
غرض پڑنے پہ اس سے مانگتا ہے
امت شرما میت