EN हिंदी
غرض کسی سے نہ اے دوستو کبھو رکھیو | شیح شیری
gharaz kisi se na ai dosto kabhu rakhiyo

غزل

غرض کسی سے نہ اے دوستو کبھو رکھیو

کلیم عاجز

;

غرض کسی سے نہ اے دوستو کبھو رکھیو
بس اپنے ہاتھ یہاں اپنی ابرو رکھیو

زمانہ سنگ سہی آئنہ سی خو رکھیو
جو دل میں رکھیو وہی سب کے روبرو رکھیو

نہ جانے کون اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دے
بہت سنبھال کے اس بزم میں سبو رکھیو

اڑا نہ دیجئے سب غم کی رنگ رلیوں میں
بچا کے دل کے پیالے میں کچھ لہو رکھیو

یہی بچائے گی شمشیر وقت سے عاجزؔ
ہماری بات قریب رگ گلو رکھیو