غرض کسی سے نہ اے دوستو کبھو رکھیو
بس اپنے ہاتھ یہاں اپنی ابرو رکھیو
زمانہ سنگ سہی آئنہ سی خو رکھیو
جو دل میں رکھیو وہی سب کے روبرو رکھیو
نہ جانے کون اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دے
بہت سنبھال کے اس بزم میں سبو رکھیو
اڑا نہ دیجئے سب غم کی رنگ رلیوں میں
بچا کے دل کے پیالے میں کچھ لہو رکھیو
یہی بچائے گی شمشیر وقت سے عاجزؔ
ہماری بات قریب رگ گلو رکھیو
غزل
غرض کسی سے نہ اے دوستو کبھو رکھیو
کلیم عاجز