گر اس کا سلسلہ بھی عمر جاوداں سے ملے
کسی کو خاک سکوں مرگ ناگہاں سے ملے
کوئی زمیں سے بھی پہنچائے آسماں کو پیام
پیام اہل زمیں کو تو آسماں سے ملے
خود اپنی گم شدگی سے جنہیں شکایت ہے
تو ہی بتا انہیں تیرا نشاں کہاں سے ملے
سراغ عمر گزشتہ ملے کہیں سے حفیظؔ
سراغ عمر گزشتہ مگر کہاں سے ملے
غزل
گر اس کا سلسلہ بھی عمر جاوداں سے ملے
حفیظ ہوشیارپوری