گر انہیں ہے اپنی صورت پر گھمنڈ
ہم کو ہے اپنی محبت پر گھمنڈ
میرے ان کے پھر بھلا کیوں کر بنے
ختم ہے دونوں کی خصلت پر گھمنڈ
کیا نہیں دیکھی بلندی آہ کی
کیوں فلک کرتا ہے رفعت پر گھمنڈ
کام قاروں کے نہ آیا مال و زر
منعمو بے جا ہے دولت پر گھمنڈ
بادشاہ ہفت کشور ہے تو کیا
کر نہ دو دن کی حکومت پر گھمنڈ
دیکھ کر آئینہ مجھ کو دنگ ہے
مجھ کو بھی ہے اپنی حیرت پر گھمنڈ
ان کو اپنی صبح محشر پر ہے ناز
ہم کو اپنی شام فرقت پر گھمنڈ
چھپ چھپا کر دیکھ بھی لیں گے تمہیں
ہم کو بھی ہے اپنی جرأت پر گھمنڈ
کچھ نہیں کر سکتا انجمؔ آپ کا
آسماں کو ہے جو حسرت پر گھمنڈ
غزل
گر انہیں ہے اپنی صورت پر گھمنڈ
مرزا آسمان جاہ انجم