EN हिंदी
گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی | شیح شیری
gar ho na KHafa to kah dun ji ki

غزل

گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی

میر کلو عرش

;

گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی
اس دم تمہیں یاد ہے کسی کی

جو سامنے ہو کہے اسی کی
منہ دیکھی ہے بات آرسی کی

پھولوں کا کبھی نہ ہار پہنا
بدھی جو پڑی تری چھڑی کی

گلگیر نے کاٹ کر سر‌ شمع
پروانے سے شب کٹی جلی کی

تسبیح میں بھی ہو تار زنار
خاطر نہ شکستہ کر کسی کی

آیا شب مہ میں وہ جو تا فرش
چادر ہوئی گرد چاندنی کی

صیاد کبھی تو ذبح کر ڈال
مڑ جائے گی باڑ کیا چھری کی

آئینہ برق میں ہے لازم
تصویر کھینچے تری ہنسی کی

ترتیب کہن کی وضع اے عرشؔ
ہم نے دیوان میں نئی کی