EN हिंदी
گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے | شیح شیری
gar baDe mard ho to ghair ko yan ja dije

غزل

گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے

میر محمدی بیدار

;

گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے
اس کو کہہ دیکھیے کچھ یا مجھے اٹھوا دیجے

کون ایسا ہے جو چھیڑے ہے تمہیں راہ کے بیچ
میں سمجھ لوں گا ٹک اس کو مجھے بتلا دیجے

دل و جان و خرد و دیں پہلے ہی دن دے بیٹھے
آج حیراں ہوں کہ آتا ہے اسے کیا دیجے

کیا ہوا حال بھلا دیکھ تو مجھ بے دل کا
نہ کبھی دلبری کیجے نہ دلاسہ دیجے

دعویٔ رستمی کرتے تو ہیں پر اک دم میں
چھین لوں تیغ و سپر ان کی جو فرما دیجے

گم ہوا ہے ابھی یاں گوہر دل اے خوباں
ہاتھ لگ جاوے تمہارے تو مجھے پا دیجے

بے وفا دشمن مہر آفت جاں سنگیں دل
حیف بیدارؔ کہ ایسے کو دل اپنا دیجے