گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے
اس کو کہہ دیکھیے کچھ یا مجھے اٹھوا دیجے
کون ایسا ہے جو چھیڑے ہے تمہیں راہ کے بیچ
میں سمجھ لوں گا ٹک اس کو مجھے بتلا دیجے
دل و جان و خرد و دیں پہلے ہی دن دے بیٹھے
آج حیراں ہوں کہ آتا ہے اسے کیا دیجے
کیا ہوا حال بھلا دیکھ تو مجھ بے دل کا
نہ کبھی دلبری کیجے نہ دلاسہ دیجے
دعویٔ رستمی کرتے تو ہیں پر اک دم میں
چھین لوں تیغ و سپر ان کی جو فرما دیجے
گم ہوا ہے ابھی یاں گوہر دل اے خوباں
ہاتھ لگ جاوے تمہارے تو مجھے پا دیجے
بے وفا دشمن مہر آفت جاں سنگیں دل
حیف بیدارؔ کہ ایسے کو دل اپنا دیجے
غزل
گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے
میر محمدی بیدار