غنیمت ہے کسی کے سر نہیں ہوں
ابھی تک گھر سے میں بے گھر نہیں ہوں
ابھی دیوار سے گزرا تو جانا
میں اپنے جسم کے اندر نہیں ہوں
یہ اچھی بات ہے تم سامنے ہو
میں یعنی خواب سے باہر نہیں ہوں
میں چاروں اور سے ہوں بند کمرہ
فقط دیوار ہوں میں در نہیں ہوں
اگر ہوتا تو خود کو پھر بناتا
مگر افسوس کوزہ گر نہیں ہوں
سمندر سوکھ جانے پر ملا ہوں
مگر ملوہ ہوں بس گوہر نہیں ہوں
میں سوکھا دشت ہوں اور دشت ایسا
کسی بھی جانور کا گھر نہیں ہوں
غزل
غنیمت ہے کسی کے سر نہیں ہوں
نویش ساہو