غمزۂ چشم شرمسار کہاں
سر تو حاضر ہے تیغ یار کہاں
گل بھی کرتا ہے چاک اپنا جیب
پر گریباں سا تار تار کہاں
ہو غزالوں کو اس سے ہم چشمی
تیکھی چتون کہاں خمار کہاں
عندلیبوں نے گل کو گھیر لیا
ایک جیوڑا کہاں ہزار کہاں
ایک دن ایک شخص نے پوچھا
میر صاحب تمہارا یار کہاں
میں نے اس سے کہا کہ سن بھائی
اب مجھے اس تلک ہے بار کہاں
گاہ گاہے سلام کرتا ہے
پر وہ باتیں کہاں وہ پیار کہاں
زندگی تک ستم تو سہہ لے سوزؔ
پھر تو یہ ظلم بار بار کہاں
غزل
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
میر سوز