غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں
جو آتا ہے نظر میں اس کو لے آتے ہیں دل میں
نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کر رہے ہیں
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو
سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کر رہے ہیں
تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں
تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کر رہے ہیں
زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں
سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں
سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے
یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کر رہے ہیں
تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے
سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کر رہے ہیں
ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے
ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کر رہے ہیں
ہمیں روکے ہوئے ہے پاس ناموس محبت
یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کر رہے ہیں
بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن
ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کر رہے ہیں
ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب
بڑے عرصے سے ہم بھی ترک دنیا کر رہے ہیں
جو ہوگی صبح تو تقسیم ہو جائیں گے پھر ہم
ڈھلی ہے شام تو خود کو اکٹھا کر رہے ہیں
جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟
ارے توبہ کریں عرفانؔ، یہ کیا کر رہے ہیں
غزل
غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
عرفان ستار