EN हिंदी
غموں میں ڈوبی ہوئی ہے ہر اک خوشی میری | شیح شیری
ghamon mein Dubi hui hai har ek KHushi meri

غزل

غموں میں ڈوبی ہوئی ہے ہر اک خوشی میری

ممتاز میرزا

;

غموں میں ڈوبی ہوئی ہے ہر اک خوشی میری
عجیب طور سے گزری ہے زندگی میری

ہر ایک لمحہ گزرتا ہے حادثے کی طرح
بس ایک درد مسلسل ہے زندگی میری

خیال و فکر نے کیا کیا صنم تراشے تھے
تمام عمر پرستش میں کٹ گئی میری

مرا سفینۂ ہستی ہے اور موج بلا
تماشا دیکھتی رہتی ہے بے بسی میری

ہجوم درد میں گم ہو گئی مری آواز
زمانے والوں نے روداد کب سنی میری

مری حیات ادھوری رہی تمہارے بغیر
بتاؤ تم نے بھی محسوس کی کمی میری

غم حیات کی روداد تھی مگر ممتازؔ
سمجھ لیا اسے لوگوں نے شاعری میری