غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے
یہ کیسے کرب کے عالم سے ہم گزارے گئے
ہوا ہے اس لیے بھی سوگوار و نوحہ کناں
ہجوم شہر میں ہم لوگ لا کے مارے گئے
بساط وقت پہ کھیلی گئی ہے جب بازی
ہمی تو کھیل میں ہر سمت رکھ کے ہارے گئے
وہ چاند ٹوٹ گیا جس سے رات روشن تھی
چمک رہے تھے فلک پر جو سب ستارے گئے
جہاں جہاں سے بھی گزری ہجوم ماتم میں
شگفتہ پھول سے چہرے فضا پہ وارے گئے
فگارؔ آگ کہاں اب دھواں بھی مشکل ہے
وہ شب کو اوس پڑی ہے کی سب شرارے گئے
غزل
غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے
سلیم فگار