EN हिंदी
غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے | شیح شیری
ghamon ki aag pe sab Khaal-o-KHad sanware gae

غزل

غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے

سلیم فگار

;

غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے
یہ کیسے کرب کے عالم سے ہم گزارے گئے

ہوا ہے اس لیے بھی سوگوار و نوحہ کناں
ہجوم شہر میں ہم لوگ لا کے مارے گئے

بساط وقت پہ کھیلی گئی ہے جب بازی
ہمی تو کھیل میں ہر سمت رکھ کے ہارے گئے

وہ چاند ٹوٹ گیا جس سے رات روشن تھی
چمک رہے تھے فلک پر جو سب ستارے گئے

جہاں جہاں سے بھی گزری ہجوم ماتم میں
شگفتہ پھول سے چہرے فضا پہ وارے گئے

فگارؔ آگ کہاں اب دھواں بھی مشکل ہے
وہ شب کو اوس پڑی ہے کی سب شرارے گئے