غم زدہ زندگی رہی نہ رہی
خوش رہے ہم خوشی رہی نہ رہی
زندگی کی حسین راہوں میں
چھاؤں ٹھنڈی کبھی رہی نہ رہی
چاند تاروں میں زندگی کاٹی
آپ کو یاد بھی رہی نہ رہی
راہ مستی میں وہ چراغ ملے
جل گئے روشنی رہی نہ رہی
جب کوئی راہ پر لگا ہی نہیں
رہبری رہبری رہی نہ رہی
رہ گئی بات آپ کی چلئے
میری وقعت رہی رہی نہ رہی
دے کے امید پوچھتے ہیں مجھے
دل میں حسرت کوئی رہی نہ رہی
عمر گزری گناہ گاری میں
فکر انجام کی رہی نہ رہی
اپنے مرکز پہ آ گیا ہوں ہریؔ
غم نہیں زندگی رہی نہ رہی

غزل
غم زدہ زندگی رہی نہ رہی
ہری مہتہ