EN हिंदी
غم زدہ میں بھی نہیں اور غمیں تو بھی نہیں | شیح شیری
gham-zada main bhi nahin aur ghamin tu bhi nahin

غزل

غم زدہ میں بھی نہیں اور غمیں تو بھی نہیں

حادث صلصال

;

غم زدہ میں بھی نہیں اور غمیں تو بھی نہیں
اب تو پابند وفا میں بھی نہیں تو بھی نہیں

میں بھی افتادۂ انداز تمناۓ حیات
یعنی دوشیزۂ فردوس بریں تو بھی نہیں

اے شفق خیزئ اجمال سحر صد افسوس
عکس تاریکئ شب ہاۓ حزیں تو بھی نہیں

میں کہ ہم زاد نشینان حریم خستہ
ہائے کاشانۂ بے خس کا مکیں تو بھی نہیں

زینت سایۂ دیوار مکان میرا گماں
اور کوئی بھی نہیں سایہ نشیں تو بھی نہیں

روح پژمردۂ تخئیل لب و مصحف ناز
اس اداسی کا سبب میرے تئیں تو بھی نہیں

فطرت گردش آلام تغیر سے ورا
خوگر عیش مگر میں بھی نہیں تو بھی نہیں