غمزدہ ہم ہیں یہ کہنا چھوڑ دو
یا ہمارے ساتھ رہنا چھوڑ دو
چاہیئے گر زندگانی کا مزہ
وقت کی لہروں میں بہنا چھوڑ دو
شک کریں گے لوگ اشکوں پر مرے
اس طرح آنکھوں میں رہنا چھوڑ دو
ضبط غم اچھی علامت ہے مگر
پھر بھی تنہائی میں رہنا چھوڑ دو
جتنی مل جائے خوشی لیتے رہو
غم اگر مشکل ہے سہنا چھوڑ دو
دشمنوں سے کر لو سمجھوتہ کرنؔ
دوستوں کا ظلم سہنا چھوڑ دو

غزل
غمزدہ ہم ہیں یہ کہنا چھوڑ دو
کویتا کرن