غم تیرا مجھے جاں سے گزرنے نہیں دیتا
مرنا بھی اگر چاہوں تو مرنے نہیں دیتا
اک بوند بھی پایاب نظر آتی ہے اب تو
یہ ڈر مجھے دریا میں اترنے نہیں دیتا
حالات پہ موقوف نہیں اپنی تباہی
قسمت کا لکھا بھی تو سنورنے نہیں دیتا
پھولوں سے وہ ہر صبح اڑا لیتا ہے سرخی
بے رنگ کلی کو بھی نکھرنے نہیں دیتا
مرہم جسے سمجھا تھا زمانے کی نظر نے
بھرتے ہوئے زخموں کو بھی بھرنے نہیں دیتا
ہر راہ کو وہ سانپ کی مانند ہے گھیرے
وہ راہ گزر سے بھی گزرنے نہیں دیتا
عمرانؔ میں اک عمر سے پتھر کی طرح ہوں
خوشبو کی طرح مجھ کو بکھرنے نہیں دیتا
غزل
غم تیرا مجھے جاں سے گزرنے نہیں دیتا
آل عمران