EN हिंदी
غم تیرا مجھے جاں سے گزرنے نہیں دیتا | شیح شیری
gham tera mujhe jaan se guzarne nahin deta

غزل

غم تیرا مجھے جاں سے گزرنے نہیں دیتا

آل عمران

;

غم تیرا مجھے جاں سے گزرنے نہیں دیتا
مرنا بھی اگر چاہوں تو مرنے نہیں دیتا

اک بوند بھی پایاب نظر آتی ہے اب تو
یہ ڈر مجھے دریا میں اترنے نہیں دیتا

حالات پہ موقوف نہیں اپنی تباہی
قسمت کا لکھا بھی تو سنورنے نہیں دیتا

پھولوں سے وہ ہر صبح اڑا لیتا ہے سرخی
بے رنگ کلی کو بھی نکھرنے نہیں دیتا

مرہم جسے سمجھا تھا زمانے کی نظر نے
بھرتے ہوئے زخموں کو بھی بھرنے نہیں دیتا

ہر راہ کو وہ سانپ کی مانند ہے گھیرے
وہ راہ گزر سے بھی گزرنے نہیں دیتا

عمرانؔ میں اک عمر سے پتھر کی طرح ہوں
خوشبو کی طرح مجھ کو بکھرنے نہیں دیتا