غم رات دن رہے تو خوشی بھی کبھی رہی
اک بے وفا سے اپنی بڑی دوستی رہی
ان سے ملن کی شام گھڑی دو گھڑی رہی
اور پھر جو رات آئی تو برسوں کھڑی رہی
شام وصال درد نے جاتے ہوئے کہا
کل پھر ملیں گے دوست اگر زندگی رہی
بستی اجڑ گئی بھی تو کیکر ہرے رہے
دربند ہو گئے بھی تو کھڑکی کھلی رہی
اخترؔ اگرچہ چاروں طرف تیز دھوپ تھی
دل پر خیال یار کی شبنم پڑی رہی

غزل
غم رات دن رہے تو خوشی بھی کبھی رہی
سعید اختر