غم قرطاس پہ اپنے کرب کی باتیں لکھتے رہنا
ہجر کتاب کو پڑھتے رہنا شرحیں لکھتے رہنا
پھر یوں ہوگا اک گم گشتہ چہرا سامنے ہوگا
خوابوں کی دیوار بنانا آنکھیں لکھتے رہنا
اتنا کرنا اپنی سوچ کی آن نہ بکنے دیتا
دن کی دن ہی اور راتوں کو راتیں لکھتے رہنا
ایسا وقت نہ آنے دینا سوکھیں سوچ سمندر
لہروں سے آواز ملانا موجیں لکھتے رہنا
باہر کے اس شور میں تیری باتیں دب جائیں تو
اندر سے جو آتی ہیں آوازیں لکھتے رہنا
طاہرؔ !ان بے بس لمحوں کا عہد نبھانا ہوگا
اس نے کہا تھا خط مت لکھنا غزلیں لکھتے رہنا

غزل
غم قرطاس پہ اپنے کرب کی باتیں لکھتے رہنا
قیوم طاہر