EN हिंदी
غم و خوشی کے اگر سلسلے نہیں چلتے | شیح شیری
gham-o-KHushi ke agar silsile nahin chalte

غزل

غم و خوشی کے اگر سلسلے نہیں چلتے

ندیم فرخ

;

غم و خوشی کے اگر سلسلے نہیں چلتے
تو میرے ساتھ کبھی حوصلے نہیں چلتے

انا کے پیڑ پہ کھلتے نہیں خلوص کے پھول
ضدوں کے ساتھ کبھی فیصلے نہیں چلتے

بس اک نگاہ پہ عمریں نثار ہوتی ہیں
محبتوں کے کبھی سلسلے نہیں چلتے

ہمارے قدموں میں رہتے ہیں راستے لیکن
ہمارے ساتھ کبھی مرحلے نہیں چلتے

ہر ایک شخص یہاں میر کارواں خود ہے
اسی لیے تو یہاں قافلے نہیں چلتے