EN हिंदी
غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا | شیح شیری
gham-nasibon ko kisi ne to pukara hoga

غزل

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا

صوفی تبسم

;

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہوگا

آج کس یاد سے چمکی تری چشم پر نم
جانے یہ کس کے مقدر کا ستارا ہوگا

جانے اب حسن لٹائے گا کہاں دولت درد
جانے اب کس کو غم عشق کا یارا ہوگا

ترے چھپنے سے چھپیں گی نہ ہماری یادیں
تو جہاں ہوگا وہیں ذکر ہمارا ہوگا

یوں جدائی تو گوارا تھی یہ معلوم نہ تھا
تجھ سے یوں مل کے بچھڑنا بھی گوارا ہوگا

چھوڑ کر آئے تھے جب شہر تمنا ہم لوگ
مدتوں راہ گزاروں نے پکارا ہوگا

ایک طوفاں میں قریب آ گئی اپنی منزل
ہم سمجھتے تھے بہت دور کنارا ہوگا

مسکراتا ہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ تبسمؔ بھی کوئی درد کا مارا ہوگا