غم نیرنگ دکھاتا ہے ہستی کی جلوہ نمائی کا
کتنے زمانوں کا حاصل ہے اک لمحہ تنہائی کا
تیرے نازک لب ہیں گویا موسم کا موضوع سخن
گلشن گلشن شہرہ ہے شادابی کا رعنائی کا
اپنے غم کی فکر نہ کی اس دنیا کی غم خواری میں
برسوں ہم نے دست جنوں سے کام لیا دانائی کا
عالم کے ہر منظر کو کچھ رنگ نئے مل جاتے ہیں
کرنیں صبح کی لے جاتی ہیں روپ تری انگڑائی کا
ساحل و طوفاں کے افسانے رنگ حقیقت کیا دیں گے
ڈوب کے ابھرو تو عرفاں ہو دریا کی گہرائی کا
دل میں کوثرؔ آئے کتنے دور تغیر کے لیکن
نقش تمنا پر جب دیکھو عالم ہے برنائی کا
غزل
غم نیرنگ دکھاتا ہے ہستی کی جلوہ نمائی کا
کوثر جائسی