EN हिंदी
غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو | شیح شیری
gham mera dushman-e-jaani hai kaho ya na kaho

غزل

غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو

عشق اورنگ آبادی

;

غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو
میرے آنسو کی زبانی ہے کہو یا نہ کہو

رات پروانے کے ماتم میں گداز دل سے
شمع کی اشک فشانی ہے کہو یا نہ کہو

غنچۂ گل کے تئیں دیکھتے ہی ہم نے کہا
دل پر خوں کی نشانی ہے کہو یا نہ کہو

ماتھا گھسنے سے مرے مہر جبیں کے در پر
صبح کی اجلی پیشانی ہے کہو یا نہ کہو

میت عشق کا گر دیکھو رخ نورانی
مغفرت کی یہ نشانی ہے کہو یا نہ کہو