غم کو دل کا قرار کر لیا جائے
اس خزاں کو بہار کر لیا جائے
پھر جنوں کو سوار کر لیا جائے
خود کو پھر تار تار کر لیا جائے
زندگی کی کمان سے نکلے
تیر کو آر پار کر لیا جائے
خودکشی کو ادھار رکھتے ہوئے
موت کا انتظار کر لیا جائے
تجربوں کو بھلا کے چاہتے ہیں
تجھ پہ پھر اعتبار کر لیا جائے
ایک ہی شخص تو جہان میں ہے
خود کو بھی گر شمار کر لیا جائے
سوچ کر اس جہاں کے بارے میں
خود کو کیوں شرمسار کر لیا جائے
اب تو لگتا دشمنوں کو بھی
دوستوں میں شمار کر لیا جائے
اشک آنکھوں میں پھر امڈ آئے
اس ندی کو بھی پار کر لیا جائے
پتھر اوروں پہ اب نہیں اٹھتے
خود کو ہی سنگسار کر لیا جائے
سن کے اپنے ضمیر کی آواز
خود کو کیوں شرمسار کر لیا جائے
غزل
غم کو دل کا قرار کر لیا جائے
راجیش ریڈی