غم کو باہم بہم نہ کیجے
گر غم ہے تو غم کا غم نہ کیجے
یک نیم نگہ ہے سو بھی کاری
کچھ اس میں سے تو کم نہ کیجے
گو ہم ہیں عاشق وفادار
پر اتنا بھی ستم نہ کیجے
بے فائدہ روئیے کہاں تک
اب جی میں ہے چشم نم نہ کیجے
غیروں کے پڑھانے کو میرا وصف
اس طور سے یہ کرم نہ کیجے
گو تیغ اصیل ہیں یہ ابرو
ہر دم اتنا بھی خم نہ کیجے
گر جام مے اثرؔ لگے ہاتھ
پھر خواہش جام جم نہ کیجے
غزل
غم کو باہم بہم نہ کیجے
میر اثر