غم کی دیوار کو میں زیر و زبر کر نہ سکا
اک یہی معرکہ ایسا تھا جو سر کر نہ سکا
دل وہ آزاد پرندہ ہے کہ جس کو میں نے
قید کرنا تو بہت چاہا مگر کر نہ سکا
دور اتنی بھی نہ تھی منزل مقصود مگر
یوں پڑے پاؤں میں چھالے کہ سفر کر نہ سکا
زندگی میری کٹی ایک سزا کے مانند
چین سے دنیا میں پل بھر بھی بسر کر نہ سکا
آسماں پر وہ گیا قلب زمیں میں اترا
کون سا کام ہے ایسا جو بشر کر نہ سکا
بات جیسی بھی ہو تاثیر ہے شرط لازم
شعر وہ کیا جو کسی دل میں بھی گھر کر نہ سکا

غزل
غم کی دیوار کو میں زیر و زبر کر نہ سکا
طارق متین