غم کی بھٹی میں بصد شوق اتر جاؤں گا
تپ کے کندن سا میں اک روز نکھر جاؤں گا
زندگی ڈھنگ سے میں کر کے بسر جاؤں گا
کام نیکی کے زمانے میں میں کر جاؤں گا
مر کے جانا ہے کہاں مجھ کو نہیں یہ معلوم
رہ کے دنیا میں کوئی کام تو کر جاؤں گا
غم اٹھا لوں گا جو بخشے گا زمانہ مجھ کو
تیرے دامن کو تو خوشیوں سے میں بھر جاؤں گا
دیکھتا جاؤں گا مڑ مڑ کے تمہاری جانب
چھوڑ کر جب میں تمہارا یہ نگر جاؤں گا
خاک پر گرنے سے مٹ جائے گی ہستی میری
بن کے آنسو ترے دامن پہ ٹھہر جاؤں گا
لاکھ بے رنگ ہو تصویر جہاں کی لیکن
رنگ تصویر کے خاکے میں میں بھر جاؤں گا
تو نے اک بار حقارت سے جو دیکھا اے دوست
میں زمانے کی نگاہوں سے اتر جاؤں گا
میں تو بڑھتا ہی رہوں گا رہ حق میں اے نورؔ
کیوں سمجھتی ہے یہ دنیا کہ میں ڈر جاؤں گا

غزل
غم کی بھٹی میں بصد شوق اتر جاؤں گا
شیام سندر نندا نور