غم کی بے پناہی میں دل نے حوصلہ پایا
تیرگی کے جنگل میں چشمۂ ضیا پایا
آفتاب کا پیکر بن گیا بدن اپنا
روشنی میں سائے کا سحر ٹوٹتا پایا
کھل گئی جو آنکھ اپنی وقت کی صدا سن کر
ان گنت جہانوں کا در کھلا ہوا پایا
ہر قدم پہ ساتھ اپنے خود کو دیکھتے ہیں ہم
ہم سفر کوئی اپنا اب نہ دوسرا پایا
مدتوں کے بعد ان سے اس طرح ملے ہیں ہم
اجنبی کوئی جیسے صورت آشنا پایا
گرد میں ہوا ہے گم قافلہ زمانے کا
آفتاب کو اپنے سائے میں پڑا پایا
لے اڑی ندیمؔ آخر زندگی کی طغیانی
روح کے سمندر میں جسم ڈوبتا پایا

غزل
غم کی بے پناہی میں دل نے حوصلہ پایا
صلاح الدین ندیم