غم کہ تھا حریف جاں اب حریف جاناں ہے
اب وہ زلف برہم ہے اب وہ چشم گریاں ہے
وسعتوں میں دامن کی ان دنوں گریباں ہے
ہم نفس کہیں شاید موسم بہاراں ہے
رنگ و بو کے پردے میں کون یہ خراماں ہے
ہر نفس معطر ہے ہر نظر غزل خواں ہے
بندگی یہ کیا جانے دیر کیا حرم کیا ہے
ہم جہاں پہ ہیں واعظ کفر ہے نہ ایماں ہے
شکریہ مگر ناصح تو یہ راز کیا سمجھے
جور برملا ان کا التفات پنہاں ہے
غزل
غم کہ تھا حریف جاں اب حریف جاناں ہے
راز مراد آبادی