غم کے بادل ہیں یہ ڈھل جائیں گے رفتہ رفتہ
دیپ ہر گام پہ جل جائیں گے رفتہ رفتہ
آبلہ پائی ہی کافی ہے ترا رخت سفر
خار خود گل میں بدل جائیں گے رفتہ رفتہ
طور پر آ کے ذرا آپ اٹھائیں تو نقاب
سنگ دل بن کے پگھل جائیں گے رفتہ رفتہ
چشم ساقی سے کہاں پی ہے کہ گر کر نہ اٹھیں
جام سے پی ہے سنبھل جائیں گے رفتہ رفتہ
نہ سہی وصل کوئی وصل کا وعدہ تو کرے
ہم تو اس پر ہی بہل جائیں گے رفتہ رفتہ

غزل
غم کے بادل ہیں یہ ڈھل جائیں گے رفتہ رفتہ
احمد شاہد خاں