EN हिंदी
غم کا حامل نہ کچھ خوشی کا ہے | شیح شیری
gham ka hamil na kuchh KHushi ka hai

غزل

غم کا حامل نہ کچھ خوشی کا ہے

نظر برنی

;

غم کا حامل نہ کچھ خوشی کا ہے
دل گرفتار عاشقی کا ہے

حسن اور مائل کرم توبہ
یہ مقدر کسی کسی کا ہے

کوئی لوٹا گیا سر منزل
تذکرہ ہر جگہ اسی کا ہے

وہ نظر بھر کے دیکھتا ہی نہیں
عکس دل میں مگر اسی کا ہے

موت سے تو مفر نہیں ہرگز
اصل ماتم تو زندگی کا ہے

نیند آنکھوں سے شوق سے جائے
رنج فرقت میں بیکلی کا ہے

وہ نظرؔ کو بچا کے جاتے ہیں
واقعہ یہ ابھی ابھی کا ہے