غم جدا پیش رہا ہے مرے افکار جدا
دل پہ یہ مار جدا رہتی ہے وہ مار جدا
ہو گئی بند جو بیمار محبت کی زباں
چارہ گر چپ ہیں جدا مونس و غم خوار جدا
دل بھی کیا جنس ہے منحوس وہ فرماتے ہیں
بیچنے والے جدا رو میں خریدار جدا
تم اگر جاؤ تو وحشت مری کھا جائے مجھے
گھر جدا کھانے کو آئے در و دیوار جدا
مال کا مول ہے موقوف خریداروں پر
دشت کنعاں ہے جدا مصر کا بازار جدا
مجھ سے ناراض ہیں جو لوگ وہ خوش ہیں ان سے
میں جدا چیز ہوں ناطقؔ مرے اشعار جدا
غزل
غم جدا پیش رہا ہے مرے افکار جدا
ناطق گلاوٹھی