غم جب ان کا دیا ہوا غم ہے
حیف اس آنکھ پر جو پر نم ہے
دل کی آواز لاکھ مدھم ہے
دل کی آواز میں بڑا دم ہے
زندگی میں سکون کے طالب
زندگی خود ہی مستقل غم ہے
ان کے جاتے ہی یہ ہوا محسوس
جیسے تاروں میں روشنی کم ہے
چین ہے ترک آرزو کے بعد
آرزوؤں کا نام ہی غم ہے
ہر نفس مخزن الم ہے رئیسؔ
شکر ہے عمر آدمی کم ہے

غزل
غم جب ان کا دیا ہوا غم ہے
رئیس نیازی