غم ہوں جو اپنے آپ میں رستا دکھائی دے
دریا میں ڈوب کر ہی کنارا دکھائی دے
دیکھو جو غور سے کبھی چہروں کی وحشتیں
آبادیوں میں بھی تمہیں صحرا دکھائی دے
سورج کی روشنی میں کبھی اپنی سمت دیکھ
تاریکیوں میں کیا تجھے سایہ دکھائی دے
نظروں میں بس گیا مرے دل میں اتر گیا
صورت سے اجنبی کہ جو اپنا دکھائی دے
خوابوں کے ساحلوں کی طرف دیکھتا ہے کون
چڑھتا ہوا جو درد کا دریا دکھائی دے
اس شہر بے چراغ میں چہرہ وہ چاند سا
آئے جو اپنے سامنے کیسا دکھائی دے
کہرام سا ہے سینے کے اندر مچا ہوا
خوشیوں سے باغ باغ یہ چہرہ دکھائی دے
کیا قہر ہے جو رونق محفل تھا اے ندیمؔ
وہ شخص شہر بھر میں اکیلا دکھائی دے

غزل
غم ہوں جو اپنے آپ میں رستا دکھائی دے
صلاح الدین ندیم